اس وقت ہمارے حکمرانوں کی نظر میں مہنگائی، بے روزگاری ، بڑھتے جرائم ، صحت اور تعلیم مسئلہ نہیں ان کی ساری توجہ بانی پی ٹی آئی کو نیچا دکھانے پر مرکوز ہے ۔ صبح اٹھتے ہی آپ کے سامنے میز پر چائے، ہاتھ میں اخبار ہو ، آپ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہوں ، آپ کے ہاتھ میں موبائل ہو یا آپ کا کوئی بزرگ ریڈیو کان سے لگائے بیٹھا ہو ۔ حکومتی آفیشلز کی جانب سے بس یہی دیکھنے، سننے اور بولنے کو ملے گا کہ ملک کے تمام مسائل کی جڑ عمران خان ہے ۔ بھئی آپ نے اسے جیل میں ڈالا ہوا ہے۔ آئے روز عدالت میں اس کے کسی نا کسی کیس کی سماعت ہورہی ہوتی ہے ۔ اگر واقعی وہ ملک دشمن اور غدار ہے، اس نے کرپشن کی ہے یا وہ ملکی مسائل کی وجہ ہے تو اس کو سزا دو ، عام آدمی کا وقت کیوں ضائع کرتے ہو۔ اصل میں ملک کو خواجہ کا گواہ ڈڈو جیسے کیسز کا سامنا ہے اور ہر دور میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ کچھ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے ۔ ہم چونکہ میڈیا میں کام کرتے ہیں تو ہمیں آئے روز ایسے شاہ کے فرمابرداروں کا سامنا رہتا ہے۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے میں جس ادارے میں کام کرتا ہوں وہاں میں نے ایک اسٹوری کروا دی کہ دو خواتین ایم پی ایز وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے پیچھے بیٹھنے کی کوشش میں لڑتی رہیں ہیں، کیا عوامی نمائندگان کا کام یہی رہ گیا ہے؟ کیا وہ ترقیاتی کام کروانے کے لئے بھی آپس میں کھینچا تانی کرتے ہیں یا نہیں؟ اتنی سی بات کو لے کر ہمیں فون کالز کا آنا شروع ہوگیا کہ اور مجھے تو کسی فرمانبردار نے یہ تک کہہ دیا کہ میں تمہیں اور جس گیسٹ کو شو میں بلایا ہے اسے ہتک عزت کا نوٹس بھجوا ؤں گی ، خیر مجھے تو اس نوٹس کا انتظار ہی رہا حالانکہ میں فون پر بات کر کے معاملہ نمٹانے کی ہی بات کررہا تھا ۔ چلیں خیر اس خارزار میں سوچ سمجھ کر قدم رکھا ہے، بے شک نیا ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ ایسا ہوتا رہے گا۔ میرا ذاتی نظریہ کوئی بھی ہو لیکن میں ہمیشہ سے شہباز شریف ، مریم نواز اور نواز شریف کی انتظامیہ کو چلانے کے طریقوں کا اکثر معترف رہاہوں ۔ اب جو ملکی حالات و واقعات نظر آرہے ہیں مجھے تو یہی لگتا ہے کہ شہباز شریف اور مریم بی بی کو کہیں نہ کہیں بیوروکریسی کا مسئلہ درپیش ہے ۔ لیکن اگر یہ حکومت کچھ اچھا کرے گی تو بھی یہ جو شہباز شریف اور مریم نواز کے اردگرد مشیر موجود ہیں انہیں مروائیں گے۔
ایسی ایسی باتیں انکے کانوں میں کریں گے جو تعلقات میں خرابی اور حالات کو مزید خرابی کی طرف لے کر جانے والی باتیں ہی ہونگی ۔ سیاست دانوں کو سیاست دانوں سے ہی بات کرنی چاہیئے میں ہمیشہ سے اس بات کے حق میں ہوں ۔ لیکن حکومتی صفوں کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو بات کو مذاکرات کی طرف لے کر جانے کی کوشش کبھی نہیں کرنے دیں گے۔ مریم نواز نے ابھی اپنی سو دنوں کی کارکردگی کے اشتہارات میڈیا کو دیئے لیکن وہ ناکام ہوگئے اور عوام کی نظر میں مقبول نہیں ہو پائے ۔ دوسرا یہ جو مختلف اداکار ڈیجیٹل میڈیا انفلوئنسرز سے پنجاب میں حکومت کا اچھا امیج پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو عوام نے اٹھا کر اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ۔ اب لوگ جو یہ پروموشن کررہے تھے وہ ہاتھ مل رہے ہیں ، انہیں بھی تنقید کا سامنا ہے ۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے عمران خان ۔ بھئی لوگوں نے اس شخص کے نام پر ووٹ دیئے ہیں جو صحیح جگہ نہیں پہنچے ، فارم 45 اور 47 کا شور و واویلا ہم سب کے سامنے ہے ۔
سب کو پتہ ہے ایک دن رزلٹ کیا تھے اور دوسرے دن کیا ہوگئے ۔ کون جیت رہا تھا اور کس کو جتوا دیا گیا یہ بھی سب جانتے ہیں۔ میرے خیال میں شہباز شریف اور مریم نواز کو ایسے حالات میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نہیں بننا چاہئے تھا انہیں انتظار کرنا چاہئے تھا ایسے حالات کا جب ملک میں یہ تمام تر رولا رپا نہ ہو ۔ میں یہی سمجھتا ہوں کہ انتظامی معاملات شریف فیملی بہت بہتر انداز میں چلا سکتی ہے ۔ اب بھی ادارے اور بیوروکریسی شریفوں کی ایک ایک بات مانتے ہوں ، مختلف پراجیکٹس وقت پر پورے کرتے ہوں مگر عوام میں ان پراجیکٹس کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی کیوں کہ عوام کی نظر میں ایک ہی آدمی ہے جو حالات کو بدل کر رکھ دینے والا ہے اور اس کا نام عمران خان ہے ۔ موجودہ حکومت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی ۔ یہ جو بھی نیا کام شروع کرتے ہے عوام اسے اٹھا کر ایک سائیڈ پر لگا دیتے ہیں اور ایسی تنقید کرتے ہیں کہ ان پراجیکٹس کی اہمیت نہیں رہتی ۔ جو ملکی حالات اب بن گئے ہیں اور جو کچھ عوام اور حکومت میں چل رہا ہے ، بظاہر یوں لگتا ہے کہ عمران خان حکومت کو تگنی کا ناچ نچوا رہے ہیں اور اس ایک شخص کے سامنے موجودہ حکومت ۔۔۔”ڈانس کردی پئی اے”۔