مسعود کھدر پوش :ہاریوں کی زندگی بہتر بنانے کا خواہشمند ’پاگل ڈپٹی کمشنر‘ : عقیل عباس جعفری کی ہوشرُبا تحقیق

21

25 دسمبر 1985 کو لاہور سے آنے والی اس خبر نے پاکستان کے تمام عوام دوست اور ترقی پسند حلقوں کو سوگوار کر دیا کہ مشہور آئی سی ایس افسر محمد مسعود وفات پا گئے ہیں۔اگر وہ صرف محمد مسعود ہوتے تو شاید یہ ایک عام سی خبر ہوتی مگر یہ وہ محمد مسعود تھے جو پاکستان بھر میں ’مسعود کھدر پوش‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔محمد مسعود کو ’مسعود کھدر پوش‘ کیوں کہا جاتا تھا اس کا ذکر آگے آئے گا۔ اس سے پہلے ان کے کچھ حالات زندگی پر گفتگو جو ہمیں مسعود کھدر پوش ٹرسٹ کی مرتب کردہ کتاب ’سوانح حیات مسعود کھدر پوش‘، ’ہاری رپورٹ، کل اور آج‘ اور ’The Note of Dissent to The Hari Report‘ سے حاصل ہوئے ہیں۔سنہ 1947 میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بمبئی پریذیڈنسی اور سندھ میں متعین انڈین سول سروس کے افسروں کی مجموعی تعداد 131 تھی جن میں صرف 11 مسلمان تھے اور ان میں سے بھی صرف 9 نے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان میں محمد مسعود بھی شامل تھے۔
سنہ 1947 میں قیام پاکستان سے پہلے حکومت سندھ نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ سندھ میں مروجہ زرعی نظام کی اصلاح اور ہاریوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرے۔اس کمیٹی کے چیئرمین حکومت سندھ کے مشیر زراعت سرراجر ٹامس تھے جبکہ ارکان میں مسٹر محمد مسعود اور مسٹر نور الدین صدیقی شامل تھے۔ مسٹر آغا شاہی اس کمیٹی کے سیکرٹری تھے تاہم دو ہی اجلاسوں کے بعد حکومت سندھ نے ان کی جگہ گوپی چند بنواری کو سیکرٹری مقرر کر دیا۔یہ کمیٹی ہاری تحقیقات کمیٹی کے نام سے مشہور ہوئی۔کمیٹی کے چیئرمین سر راجر ٹامس ضلع تھرپارکر کے ایک بڑے زمیندار تھے جن کے قبضے میں ہزاروں ایکڑ اراضی تھی اور سندھ ہاری کمیٹی کے رسالے ہاری حقدار میں ان کی ظالمانہ کارروائیوں کے بارے میں وقتاً فوقتاً مضامین شائع ہوتے رہتے تھے۔اس کمیٹی نے 6 جون 1948 تک اپنا کام جاری رکھا اور پھر 298 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی۔ کمیٹی کے تین ارکان نور الدین صدیقی، آغا شاہی اور راجر ٹامس ایک طرف تھے اور محمد مسعود دوسری طرف۔ ایسے میں جو رپورٹ مرتب ہوئی ہوگی اس کے مندرجات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جاگیردار، کسان کا بہترین دوست اور تقریباً حقیقی باپ کی طرح ہے اور جو ہمیشہ ان کی امداد کو تیار رہتا ہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ ہاری ناشکرا ہے اور زمیندار کے احسانات کو تسلیم نہیں کرتا۔ مگر اس رپورٹ پر محمد مسعود نے دستخط نہیں کیے تھے بلکہ اس سے اختلاف کرتے ہوئے 37 صفحات پر مشتمل ایک طویل اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔

کمیٹی نے دسمبر 1948 میں اپنی رپورٹ شائع کر دی مگر بددیانتی یہ کی کہ رپورٹ کے ساتھ محمد مسعود کا اختلافی نوٹ شائع نہیں کیا۔محمد مسعود کا یہ اختلافی نوٹ سندھ کی جاگیردارانہ قیادت پر بجلی بن کر گرا۔ حکومت کو خوف تھا کہ اس نوٹ کی اشاعت جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ثابت ہو گا وہ اس نوٹ کی اشاعت کے راستے میں دیوار بن گئے۔روزنامہ ڈان نے اپنے اداریے میں لکھا کہ حکومت سندھ نے ایک ممبر کا اختلافی نوٹ اشاعت سے روک دیا ہے، اس اقدام سے لوگ جو نتیجہ اخذ کریں گے وہ یہ ہو گا کہ اس اختلافی نوٹ میں کچھ ایسی باتیں ضرور ہیں جنھیں موجودہ وزارت عوام سے چھپانا چاہتی ہے۔روزنامہ ڈان کے اس اداریے کی اشاعت کے بعد طلبا نے اس اختلافی نوٹ کا مطالبہ شروع کیا اور مختلف مقامات پر مظاہرے کئے۔ عوام میں زمین کی ملکیت اور زرعی مسئلے پر شعور پیدا ہو رہا تھا۔محمد مسعود کے اختلافی نوٹ کی اشاعت کے سلسلے میں بحث جاری تھی کہ مارچ 1949 میں کراچی سے مولانا عبدالحامد بدایونی اور 16 دوسرے علما کے دستخطوں سے ایک پمفلٹ سامنے آیا جس کا نام ’اشتراکیت اور زراعتی مساوات‘ تھا۔اس پمفلٹ میں علمائے کرام نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے یہ اختلافی نوٹ پڑھا ہے اور ان کی رائے میں یہ غیر اسلامی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس نوٹ کے مصنف کمیونسٹ رجحانات رکھتے ہیں اور انھوں نے قرآن اور حدیث سے غلط طور پر استدلال کیا ہے۔محمد مسعود ایمانداری سے محسوس کرتے تھے کہ اگر زرعی اصلاحات نافذ نہ کی گئیں تو کمیونزم کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا مگر اس کے برعکس علمائے کرام ان پر کمیونسٹ ہونے کے الزامات لگا رہے تھے۔
مولانا عبدالحامد بدایونی نے اپنے فتوے میں اسلام میں جاگیرداری اور زمینداری کے وجود کو جائز ثابت کرنے کے حق میں دلائل دیئے تھے۔ انھوں نے اختلافی نوٹ پر تنقید کے بعد وہ تمام فتوے بھی درج کر دیئے تھے جو ہندوستان اور پاکستان کے علما نے انھیں فراہم کئے تھے۔مولانا عبدالحامد بدایونی کے اس پمفلٹ کی اشاعت سے لوگوں میں خیال پیدا ہوا کہ علما تک یہ اختلافی نوٹ کیسے پہنچا۔ اسی دوران محمد مسعود کو سندھ کے ایک جاگیردار وزیر (غالباً محمد ایوب کھوڑو) کے خلاف ٹھوس ثبوت مل گئے جنھوں نے اس پمفلٹ کی تیاری کے لیے علما کو بھاری رقم کی پیشکش کی تھی۔یہ ثبوت ملنے کے بعد 5 مئی 1949 کو محمد مسعود نے حکومت سندھ پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیا۔ مرکزی حکومت اس صورتحال سے بڑی پریشان ہوئی، خود وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے محمد مسعود سے مقدمہ واپس لینے کی درخواست کی مگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے۔بالآخر سندھ کے وزیراعلیٰ یوسف ہارون نے 17 جون 1949 کو یہ اختلافی نوٹ اخبارات کو جاری کر دیا۔ محمد مسعود نے اس نوٹ میں امیروں کی جائیدادیں اور جاگیریں ضبط کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور قرآن، احادیث اور اکابر کے فیصلوں سے استدلال کرتے ہوئے ثابت کیا کہ زمینداری اسلام میں ناجائز ہے۔
انھوں نے اس اختلافی نوٹ میں ہاریوں کی زبوں حالی کا بھی نقشہ کھینچا تھا اور لکھا تھا کہ یہ نظام پاکستان کے لئے عظیم ترین لعنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اختلافی نوٹ عوام الناس میں بے حد پسند کیا گیا حتیٰ کہ حکومت کو 1950 میں زرعی اصلاحات نافذ کرنا پڑیں۔25 جون 1916 کو لاہور میں پیدا ہونے والے محمد مسعود سندھ میں زیادہ وقت نہ گزار سکے اور بہت جلد ان کا تبادلہ پنجاب کر دیا گیا جہاں انھیں مظفر گڑھ کا ڈپٹی کمشنر مقرر کیا گیا۔ محمد مسعود نے یہاں بھی عوام دوستی کی روایت کو قائم رکھا۔ حکومت تک ان کی شکایتیں پہنچے لگی کہ وہ عوام میں گھل مل جاتے ہیں اور ان کی شکایتوں پر فوری کارروائی کرتے ہیں۔
روزنامہ جنگ کراچی کے کالم نگار اور شاعر مجید لاہوری نے ان کے حق میں ’پاگل ڈپٹی کمشنر‘ کے عنوان سے ایک کالم بھی لکھا۔ محمد مسعود ملک کے مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے جن میں پاکستان اکیڈمی برائے ترقی دیہات، بورڈ آف ریونیو اور محکمہ اوقاف کے نام سرفہرست ہیں۔محمد مسعود اعلیٰ سول سرونٹ ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزارتے تھے اور ہمیشہ کھدر کا لباس پہنتے تھے اسی وجہ سے انھیں محترمہ فاطمہ جناح نے کھدر پوش کا خطاب دیا جو ان کے نام کا حصہ بن گیا۔1972 میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم کئے جانے کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو ایک بار پھر متحدہ پاکستان بنانے کے آرزو مند تھے تاہم ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔انھوں نے پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لئے بھی بہت کام کیا۔ انھوں نے پنجابی زبان میں اپنا ذاتی ماہنامہ حق اللہ کے نام سے جاری کیا اور پنجابی ادبی بورڈ کے صدر رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے پنجابی کی ترویج کے لئے پنجاب فورم کے نام سے بھی ایک تنظیم قائم کی۔سنہ 1976 میں انھوں نے پاکستانی مصنوعات کی ترویج کے لئے تحریک خوشحال پاکستان شروع کی، جس کی تائید پاکستان کے مختلف اخبارات نے بھی کی۔ وہ اردو میں نماز پڑھانے کی تحریک کے حامی تھے اور اسی باعث علما کے معتوب رہے۔محمد مسعود ادب کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔

علامہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ انھیں ازبر تھا۔ پنجابی کے کلاسیکی شعرا کا کلام بھی انھیں بہت پسند تھا خصوصاً بابا بلھے شاہ سے انھیں خاص عقیدت تھی۔25 دسمبر 1985 کو اس انسان دوست سول سرونٹ کا انتقال ہو گیا۔ وہ لاہور میں گورو مانگٹ (کبوتر پورہ) گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں