سن ویلی امریکہ کا ایک ایسا ‘سمر کیمپ’ ہے جہاں دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے والے ارب پتی افراد کی خصوصی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔سن ویلی میں جاری امریکہ کے بااثر کاروباری افراد اور ٹائیکونز کی ملاقاتوں کو ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔
امریکی صدارتی انتخاب میں صرف چار ماہ باقی رہ گئے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن جہاں بطور صدارتی امیدوار بحث کا موضوع ہیں وہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ آخری مباحثے میں ان کی کارکردگی کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ارب پتیوں کے سمر کیمپ میں اس مرتبہ موضوعِ گفتگو یہ مباحثہ اور جو بائیڈن ہی ہوں گے۔ایڈاہو کے ایک ریزورٹ ٹاؤن سن ویلی میں سرمایہ کاری بینک ایلن اینڈ کمپنی کی میزبانی میں منعقد ہونے والے اس کیمپ کا آغاز چار دہائیوں قبل ہوا تھا۔ اسے اشرافیہ کا ایک نجی اجتماع کہا جاتا ہے جس میں حصہ لینے والے تمام افراد سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔اس سال ایمیزون کے بانی جیف بیزوس، اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین، ایپل کے سی ای او ٹم کک، ڈزنی کے سی ای او باب ایگر، وارنر برادرز کے سی ای او ڈیوڈ زسلاو، مائیکروسافٹ کے شریک بانی بل گیٹس، میڈیا انٹرپرینیور شاری ریڈسٹون سمیت دیگر شخصیات اس میں شرکت کر رہے ہیں۔
یہ تمام اشرافیہ سن ویلی اپنے پرائیویٹ جیٹ طیاروں پر آئے ہیں۔سن ویلی کی سالانہ کانفرنس پہلی بار 1983 میں منعقد کی گئی تھی۔ یہاں نہ صرف بڑے بڑے تجارتی سودے کیے جاتے ہیں بلکہ بڑی بڑی جماعتوں کے رہنما اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ امریکہ کے مستقبل پر بھی تبادلہ خیال کرتے ہیں۔کیمپ میں اس بار تفریحی کمپنیوں اور میڈیا گروپس کے سربراہان اور ٹیکنالوجی کے میدان کے با اثر اور طاقتور شخصیات بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ کانفرنس میں جہاں ٹیکنالوجی کی صنعت پر مصنوعی ذہانت کے اثرات، سٹریمنگ کے مستقبل اور کھیلوں کے نشریاتی کاروبار زیر بحث رہیں گے وہیں امریکی صدارتی انتخابات اور معیشت اور کاروبار پر ان کے اثرات بھی ایجنڈے کا حصہ ہوں گے۔رواں سال یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب چند ڈیموکریٹک قانون سازوں، صدارتی مہم کے لیے عطیہ کرنے والے افراد اور پارٹی کے اراکین کی جانب سےجو بائیڈن پر صدراتی دوڑ سے دستبردار ہونے پر زور دیا جا رہا ہے۔یاد رہے کہ 27 جون کے صدارتی مباحثے میں صدر بائیڈن کی کارکردگی پر سخت سوالات کیے گئے تھے۔تاہم صدر نے بارہا کہا ہے کہ ان کا صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
صدر بائیڈن کی آئندہ چار سال تک ملک پر حکومت کرنے کی اہلیت کے بارے میں شکوک و شبہات نے بھی اس معاملے کو امریکی سیاسی ایجنڈے پر حاوی کر دیا ہے۔ملک کے ذرائع ابلاغ میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس بات کے امکانات کم ہی ہیں کہ یہ ارب پتی افراد صدر بائیڈن کے ممکنہ متبادل اور انتخابات کے نتائج پر بات چیت نہ کریں۔اگرچہ جو بائیڈن نے بارہا کہا ہے کہ ان کا صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تاہم ایک اہم نکتہ جو ڈیموکریٹک مہم کو متاثر کر سکتا ہے وہ عطیہ دہندگان ( ڈونرز) کی رائے کا وزن ہے۔اور ان ڈونرز میں سے کچھ بالواسطہ یا بلا واسطہ سن ویلی میں جمع ہونے والے خصوصی حلقے کا حصہ ہیں۔امریکی میڈیا کا اندازہ ہے کہ اس سال کے ایجنڈے میں ڈزنی میں باب ایگر کی جانشینی اور پیراماؤنٹ گلوبل اور سکائی ڈانس میڈیا کے انضمام جیسے موضوعات شامل ہوں گے۔
وارنر برادرز اور کوم کاسٹ کا مستقبل بھی ایک اور ایسا مسئلہ ہے جس پر بات چیت ممکن ہے کیونکہ ڈزنی کوم کاسٹ کے حصص خریدنے سے متعلق منصوبہ بندی کر رہا ہے۔حالیہ دنوں میں بعض میڈیا کمپنیاں اخراجات کو کم کرنے اور کاروباری منافع کو بہتر بنانے کے لیے سٹریمنگ آپریشنز کو اپنے کاروباری حریفوں کے ساتھ ضم کرنے پرغور کر رہی ہیں۔بلومبرگ کے مطابق ڈزنی اور وارنر برادرز ڈزنی، ہولو اور میکس کو ایک کمپنی بنانے کے منصوبہ پر غور کر رہے ہیں جبکہ کوم کاسٹ کے بنڈل میں نیٹ فلکس، ایپل ٹی وی کے علاوہ اس کی اپنی پیکاک سروس شامل ہے۔نشریاتی حقوق بھی سن ویلی کے ایجنڈے کا اہم اور بڑا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن اس بار کیمپ میں ڈزنی، کوم کاسٹ اور ایمیزون کے ساتھ 11 سال کے لیے 76 بلین ڈالر کے معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔ان معاہدوں کے علاوہ سن ویلی میں ہونے والی بات چیت کا بہت بڑا اثر کاروبار اور تجارت پر پڑے گا۔ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ہونے والی پس پردہ گفتگو نومبر کے انتخابات سے قبل کاروباری شعبے کےاتار چڑھاو کے بارے میں بھی بہت سے اشارے دے سکتی ہے۔