غلافِ کعبہ: سونے، چاندی اور ریشم کے دھاگوں سے بنے ’کسوہ‘ تبدیل کرنے کی صدیوں پرانی روایت

11

نئے اسلامی سال کے آغاز یعنی یکم محرم کو سعودی عرب میں مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ میں خانہ کعبہ کے غلاف یعنی کسوہ کی تبدیلی کا اہتمام آج کیا گیا۔مسجد الحرام میں غلاف کعبہ کی تبدیلی کی تقریب منعقد ہوئی اور کنگ عبدالعزیز کمپلیکس سے کسوہ یعنی غلاف کعبہ کو مسجد الحرام منتقل کیا گیا۔سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق 1350 کلو وزنی غلافِ کعبہ کی تیاری میں 159 کاریگروں نے حصہ لیا جس کی لمبائی 14 میٹر سے زیادہ ہے۔ غلاف کعبہ کی تیاری میں تقریباً ایک ہزار کلو ریشم، 120 کلو سونے اور 100 کلو چاندی کے دھاگے کا استعمال کیا گیا ہے۔سینکڑوں کلو گرام ریشم، چاندی اور سنہری دھاگوں سے تیار کیا جانے والا خانہ کعبہ کا غلاف کئی دہائیوں سے ہر سال ذوالحجہ کے اسلامی مہینے میں حج کے موقع پر نو ذوالحجہ کو تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔
ر سال غلاف کعبہ کی تبدیلی کی تقریب نماز عشا کے بعد قریب پانچ گھنٹے تک جاری رہتی ہے اور اسے پوری دنیا میں لوگ براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔تاہم 2022 میں اس روایت میں تبدیلی لائی گئی ہے اور سعودی حکام کے مطابق رواں برس یہ تقریب نئے اسلامی سال کے آغاز پر یعنی یکم محرم الحرام کو ہو گی۔جب 2022 میں غلافِ کعبہ کی تبدیلی کی تاریخ تبدیل ہوئی تو اس سلسلے میں حرمین شریفین کے امور کے صدر کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ شاہی حکم پر نیا غلاف دس ذوالحجہ کو خانہ کعبہ کے منتظمین کے حوالے کیا جائے گا اور اس کی تبدیلی کا عمل یکم محرم الحرم کو سرانجام پائے گا۔
بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ تاریخ کی تبدیلی کی وجہ کیا ہے۔


خانہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کا آغاز کب ہوا؟ اسلام سے قبل غلافِ کعبہ کے لیے کون سا کپڑا استعمال کیا جاتا تھا اور موجودہ دور میں اس غلاف کو بنانے کے لیے دھاگے کہاں سے لائے جاتے ہیں، انھیں جانچنے کے لیے اسے کتنے مراحل سے گزارا جاتا ہے؟ اور اس پر کتنی لاگت آتی ہے؟غلاف کعبہ کی تیاری کا آغاز کب ہوا اس کے متعلق مصدقہ معلومات موجود نہیں ہیں تاہم متعدد تاریخی کتب کے مطابق قبل از اسلام دور میں پہلی مرتبہ یمن کے بادشاہ طوبیٰ الحمیری نے کعبے پر غلاف چڑھایا تھا۔الحمیری نے مکہ سے واپسی پر ایک موٹے کپڑے کو استعمال کرتے ہوئِے غلاف کعبہ تیار کروایا۔ تاریخی کتب میں اس موٹے کپڑے کو ’کشف‘ کا نام دیا گیا ہے۔بعد ازاں اسی بادشاہ نے ’المعافیریہ‘ کپڑے سے غلاف تیار کروایا اور اس مقصد کے لیے یمن کے ایک قدیم شہر میں بننے والا بہترین کپڑا استعمال کیا گیا۔طوبیٰ الحمیری کے بعد کے ادوار میں غلافِ کعبہ کے لیے مختلف کپڑے استعمال کیے جن میں چمڑے سے لے کر مصر کا قبطی کپڑا تک شامل تھا۔ماضی میں مصر سے تحفے کے طور پر ہر سال غلاف کعبہ بھجوایا جاتا تھا۔ اس دور میں جمال عبدالناصر حاکم تھے۔ لیکن سنہ انیس سو باسٹھ میں جب غلاف کعبہ بندر گاہ پر پہنچا تو کافی دیر ہو گئی تھی۔ اس موقع پر سعودی عرب میں سنہ 1962 میں شاہ سعود نے شاہ فیصل کو غلاف کے لیے کارخانہ لگانے کا حکم دیا جس کو مکمل کیا گیا۔ تب سے اسے مقامی طور پر تیار کیا جارہا ہے اور سلسلہ جاری ہے۔شاہ عبدالعزیز کے دور میں اس غلاف کی تیاری کے لیے الگ سے ایک محمکہ قائم کیا گیا اور یوں اس مقصد کے لیے کپڑا مکہ میں ہی بننے لگا اور اس کام کے لیے ایک کارخانہ بھی لگایا گیا۔اس کارخانے میں غلاف کعبہ کی تیاری کے دوران استعمال ہونے والے پانی تک کو پاک کیا جاتا ہے اور غلافِ کعبہ کی تیاری میں استعمال کیے جانے والے ریشم کو اس پاک پانی سے دھویا جاتا ہے۔اس کارخانے میں غلاف کعبہ کو جس ریشم سے تیار کیا جاتا ہے اس پر سنہری اور چاندی کے تاروں سے قرانی آیات کندہ کی جاتی ہیں۔غلاف کی تیاری میں استعمال کیا جانے والا ریشم اٹلی جبکہ سنہری اور چاندی کی تاریں جرمنی سے آتی ہیں۔رئاسة شؤون الحرمين کی سرکاری ویب سائٹ پر اس غلاف کی تیاری سے متعلق معلومات دی گئی ہیں جن کے مطابق غلافِ کعبہ کو بنانے کے لیے اٹلی سے لائے جانے والے ریشمی دھاگے اعلی معیار کی گریڈ (A5) کے ہوتے ہیں اور ان کی موٹائی تین ملی میٹر ہوتی ہے جو مضبوطی اور لچک کی ضمانت دیتی ہے۔

ایک ریشم کا دھاگہ متعدد ٹیسٹ پاس کرتا ہے جس میں تھریڈ ٹیسٹ سے لے کر موٹائی، مضبوطی، رنگنے، میچنگ، دھوتے ہوئے رنگ اُترنے اور دھات کی تاروں کے ساتھ استعمال تک کے ٹیسٹ شامل ہیں۔غلاف کعبہ کے لیے بہترین معیار کو یقینی بنانے کے لیے شاہ عبد العزیز کمپلیکس میں ایک تجربہ کار ٹیم ان ٹیسٹوں کی نگرانی کرتی ہے۔اس غلاف کی تیاری پر لاگت کا تخمینہ لگ بھگ دو کروڑ سعودی ریال ہوتا ہے، یعنی تاریخ کا سب سے مہنگا غلاف۔اس غلاف کی تیاری کے عمل کی نگرانی 200 سے زیادہ مینوفیکچررز کرتے ہیں جن میں بہترین قابلیت، تجربہ، سائنسی اور عملی قابلیت رکھنے والوں کو مسجدِ نبوی اور خانہ کعبہ کے امور کے لیے ملازمت پر رکھا گیا ہے۔ریشم کو سیاہ اور سبز رنگوں میں رنگا جاتا ہے اور غلاف کی تیاری کے دوران خصوصی کیمیکلز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔حج کے موقع پر غلاف کعبہ کو تقریباً تین میٹر تک اوپر اٹھا دیا جاتا ہے اور نیچے کی جگہ کو سفید سوتی کپڑے سے ڈھک دیا جاتا ہے تاکہ کسوہ صاف رہے اور پھٹنے سے محفوظ رہ سکے۔اسلام میں تمام مسلمانوں کے لیے کعبہ انتہائی مقدس مقام ہے۔ مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 تا 12 تاريخ کو کعبہ کا حج ادا کرتے ہیں۔غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے قائم کردہ کسوہ کارخانے میں 200 ماہرین اور منتظمین کام کرتے ہیں۔ ان تمام کا تعلق سعودی عرب سے ہے اور وہ اپنے شعبے کے ماہر اور اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں۔ غلاف کی تیاری کا کام آٹھ ماہ میں مکمل ہوتا ہے۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے پرانے غلاف کا کیا جاتا ہے؟ پرانے غلافِ کعبہ کو اُتار کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیا جاتا ہے اور سعودی عرب کا دورہ کرنے والے مسلمان ملکوں کے رہنماؤں کو بطور تحفہ یہ ٹکڑے پیش کیے جاتے ہیں۔کئی نجی ویب سائٹس بھی انتہائی مہنگے داموں اس غلاف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے فروخت کرتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں