بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیح حسینہ نے بنگلہ دیشی پارلیمان کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر پیر کے روز خصوصی اجلاس کے دوران ایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا، “وہ (امریکہ)جمہوریت کو ختم کرنے اور ایک ایسی حکومت کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا وجود جمہوری نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکت غیر جمہوری ہو گی۔”
انہوں نے امریکہ کا براہ راست نام لیے بغیر کہا، “وہ کسی بھی ملک کا تختہ پلٹ سکتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم ملکوں کا، جنہیں اس طرح کے سخت حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو بحرالکاہل سے آگے اپنی جمہوری قدروں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔شیخ حسینہ نے سوال کیا کہ “کیا جمہوریت کی تعریف اس وقت بدل جاتی ہے جب یہ بحرالکاہل کے دوسرے طر ف کے ملکوں کے سلسلے میں ہو۔”انہوں نے کہا کہ امریکہ اپوزیشن جماعتوں کو خوش کرنے کے لیے بنگلہ دیش کو جمہوریت پر لکچر دیتا ہے۔ لیکن “میں آج بھی یہ کہتی ہوں کہ وہ (امریکہ) اپنی باتوں سے ہمیں جمہوریت کا جھانسہ دیتا رہتا ہے اور اس پر ہماری اپوزیشن پارٹی اور کچھ لوگ تالیاں بجاتے ہیں، رقص کرتے ہیں۔”
انہوں نے سوال کیا، “وہ ہمیں جمہوریت اور انسانی حقوق پر لکچر دیتے ہیں۔ لیکن خود ان کے ملک میں کیا صورت حال ہے؟” یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان بھی اس سے قبل اپنی حکومت گرانے کو امریکی سازش قرار دے چکے ہیں۔ اب حسینہ واجد بھی اسی چیز کا اظہار کرتی نظر آرہی ہیں۔
امریکہ اور بنگلہ دیش میں ناچاقی
امریکہ اور بنگلہ دیش کے تعلقات کچھ عرصے سے تلخ نظر آرہے ہیں۔ امریکہ روہنگیا مسلمانوں کے انسانی حقوق کے سوال پر بنگلہ دیش کی نکتہ چینی کرچکا ہے۔
شیخ حسینہ نے یہ الزامات ایسے وقت لگائے ہیں جب بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ڈاکٹر عبدالمومن امریکہ کے دورے پر ہیں۔بنگلہ دیش میں آئندہ عام انتخابات ہونے والے ہیں اور امریکہ نے ڈھاکہ پر زور دیا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ یہ انتخابات آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ڈاکٹر مومن سے ملاقات کے دوران کہا کہ پوری دنیا بنگلہ دیش میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے بعد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک بھی چاہتا ہے کہ ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں۔ انہو ں نے کہا “جمہوریت ہمارے خون میں ہے۔ ہمارے ملک کے عوام نے جمہوریت، انصاف اور انسانی وقار کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش امریکی مشاہدین کا خیر مقدم کرے گا لیکن وہ جانبدارمشاہدین کا استقبال نہیں کرے گا۔
امریکہ نے اس برس فروری میں ہونے والے ڈیموکریسی سمٹ میں بنگلہ دیش کو مدعو نہیں کیا تھا۔ حالانکہ اس میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک پاکستان،بھارت، مالدیپ اور نیپال کو مدعو کیا گیا تھا
امریکہ نے یوم انسانی حقوق (10دسمبر) پر بنگلہ دیش کے ریپیڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) اور کئی موجودہ اور سابقہ عہدیداروں پر پابندی عائد کردی تھی۔ نیم فوجی دستے آر اے بی پرحکومت کی ایما پر لوگوں کو جبراً غائب کر دینے اور ماورائے انصاف قتل کردینے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
امریکی سفیر پیٹر ہاس نے غائب کردیے گئے افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کی تھی جن میں اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما ساجدالاسلام سمن کے رشتہ دار شامل تھے۔
فروری میں امریکی محکمہ خارجہ نے بنگلہ دیش میں جمہوریت کے زوال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈھاکہ کے ساتھ تعاون کو محدود کردینے کی دھمکی دی تھی۔
شیخ حسینہ نے کہا کہ ” 15اگست(1975) کے قتل عام کے گنہگار رشید (رشید چودھری) نے امریکہ میں پناہ لے رکھی ہے۔ میں نے وہاں کے تمام منتخب صدور سے اپیل کی اور قانونی اقدام بھی کیے کہ اسے بنگلہ دیش لایا جا سکے لیکن اس کے باوجود امریکہ نے ایسے مجرموں کو پناہ دے رکھا ہے۔”
رشید چودھری شیح حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان کے خلاف فوجی بغاوت کے قائد تھے۔ ان پر شیخ مجیب کے قتل کا الزام ہے۔
خیال رہے کہ اس بغاوت میں شیخ مجیب الرحمان کے تقریباً پورے کنبے کو قتل کردیا گیا تھا۔ ان کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ اس وقت مغربی جرمنی میں تھیں۔ انہیں بنگلہ دیش آنے سے روک دیا گیا تھا بعد میں انہوں نے بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کی اور 17مئی 1981کو بنگلہ دیش لوٹنے تک شیخ حسینہ بھارت میں ہی جلاوطنی کی زندگی گزارتی رہیں۔
بنگلہ دیش اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخی کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دراصل امریکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ روکنے کی کوشش کررہا ہے اوراسی لیے کئی ملکوں کی حکومتوں پر مختلف طریقے سے دباو ڈال رہا ہے۔